وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ
اور ظاہر اور پوشیدہ گناہ چھوڑ دو جو لوگ گناہ کرتے ہیں وہ اپنے کئے کی جزا پائیں گے ۔
(115) محرمات کی تفصیل کی بعد اب ان گناہوں کا بیان ہو رہا ہے جنہیں یکسر چھوڑدینا واجب ہے، ظاہر اور پوشیدہ گناہ کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں : مجاہد کے نزدیک اس سے مراد کھلے اور پوشیدہ گناہ ہیں ۔ قتادہ کے نزدیک کم یا زیادہ نیز پوشیدہ اور کھلے گناہ مراد ہیں۔ سدی کے نزدیک "ظاہر "سے مراد طوائفوں کے ساتھ زنا، اور باطن سے پوشیدہ داشتاؤں کے ساتھ زنا مراد ہے، عکرمہ کے نزدیک ظاہر سے مراد ان عورتوں سے شادی جن سے شادی کرنا حرام ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں صحیح یہ ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے ظاہر وباطن فواحش کو حرام کردیا ہے، آیت کا جو حصہ اس کے بعد آیا ہے وہ بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے فرمایا کہ جو لوگ گناہ کریں گے انہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا، یعنی وہ گناہ چاہے ظاہر ہو یا باطن، امام احمد اور مسلم نے نواس بن سمعان (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے گناہ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا، گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے، اور تمہیں پسند نہ ہو کہ لوگوں کو اس کی اطلاع ہوجائے۔