وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور تم مسلمان ان کے معبودوں کو جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں ‘ برا نہ کہو کہ وہ بےسمجھے سرکشی سے اللہ کو برا کہیں گے اسی طرح ہم نے ہر امت کے لئے ان کے اعمال اچھے دکھلائے ہیں ‘ پھر انہیں اپنے رب کی طرف جانا ہے سو وہ انہیں جتائے گا جو وہ کرتے تھے ۔ (ف ١) ۔
(104) اس آیت کریمہ میں مو ٔمنوں کو اللہ کے ساتھ غایت تأدب کی تعلیم دی گئی ہے، انہیں مشر کین کے جھوٹے معبودوں کے گالی دینے سے اس لیے منع کیا گیا کہ مشر کین غصہ میں آکر اللہ تعالیٰ کو گا لی دیتے ہیں۔ عبدالرزاق نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ مسلمان کافروں کے بتوں کو گالیاں دیتے تھے، تو انہیں روکا گیا، تاکہ وہ اللہ کو گالی نہ دینے لگیں۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیر ہما نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے کہا اے محمد ! تم ہمارے معبودوں کو گالی دینے سے باز آجاو، ورنہ ہم بھی تمہارے رب کی برائی بیان کریں گے۔ تو اللہ نے بتوں کو گالی دینے سے مؤمنوں کو منع کردیا، اس لیے کہ جہاں کسی بڑی برائی کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ ہو، وہاں چھوٹی نیکی کو نظر انداز کردیا جائے گا، بخاری نے عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ کبیرہ گنا ہوں میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت بھیجے، لوگوں نے پوچھا کہ آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ آدمی اسکے باپ کو گالی دے گا، اور اسکی ماں کو گالی دے گا، تو وہ اسکی ماں کو گالی دے گا۔ (105) اللہ تعالیٰ نے جس طرح گذشتہ زمانوں میں اپنے نزدیک معلوم حکمتوں کے پیش نظر بہت سی گمراہ قوموں کے اعمال کو ان کی نگا ہوں میں خوبصورت اور مزین بنایا تھا، اسی طرح اس نے مشرکین مکہ کے دلوں میں بھی بتوں کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ ان کی وکالت و حمایت کرتے اور انہیں اپنا معبود بتا تے ہیں۔ لیکن قیامت کے دن جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں ان مشرکانہ اعمال کا بد لہ دیا جائے گا۔