فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ
سو جب اس پر رات نے اندھیرا کیا تو اس نے ایک تارا دیکھا ، کہا یہ میرا رب ہے ، پھر جب وہ چھپ گیا تو کہا کہ چھپ جانیوانے مجھے پسند نہیں آتے ۔
(71) مذکورہ بالا اجمال کی یہ تفصیل ہے، اور اس بات کا بیان ہے کہ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے آیات وبراہین سے استدلال کر کے یقین کا رتبہ حاصل کیا، مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم کا باپ اور اس کی قوم اصنام، شمس و قمر اور ستاروں کی پر ستش کرتے تھے، ابراہیم نے چاہا کہ ان کی اس دینی غلطی کو واضح کردیں کہ جن باطل معبودوں کی پر ستش وہ کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی معبود بننے کا مستحق نہیں ہے، اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میں ڈوب جانے والے اور غائب ہوجانے والے کو پسند نہیں کرتا، اس لیے کہ ایسی حقیر صفت اللہ کی نہیں ہو سکتی۔