مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے ان سے صرف وہی بات کہی ہے جس کا تونے مجھے حکم دیا تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان سے خبردار رہا پھر جب تونے مجھے قبض کرلیا ، تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر شئے پر گواہ ہے (ف ١) ۔
(143) ”قرآن کریم میں "وفاة" کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : موت کے معنی میں : جیسا کہ اللہ نے فرمایا اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَاĬ (الزمر :42) نیند کے معنی ہیں : جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ( الانعام :60) اور اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسا کہ اس آیت کریمہ میں آیا ہے، اور آل عمران کی آیت (55) میں آیا ہے معلوم ہوا کہ یہاں وفاہ" بمعنی "رفع" کے ہیں یعنی "جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھالیا "موت کے معنی میں نہیں ہے اسلیے کہ (جیسا کہ آل عمران میں بیان کیا جا چکا ہے) صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو موت لاحق نہیں ہوئی، بلکہ وہ آسمان پر اسی حال میں موجود ہیں جس حال میں دنیا میں تھے، یہاں تک کہ آخری زمانے میں دوبارہ زمین پر اتریں گے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام جب اپنی دنیاوی عمر پوری کر کے عالم بززخ کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ تو انہیں اپنی امتوں کی احوال واعمال کا پتہ نہیں ہوتا۔ امام بخاری نے اپنی کتاب "الصحیح" کے کئی ابواب میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، جنہیں بائیں طرف لے جا یائے گا، تو میں کہوں گا : اے رب یہ لوگ تو میرے ساتھی ہیں، تو آپ سے کہا جائے گا۔ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی باتیں پیدا کی تھیں تو میں اللہ کے نیک بندے (عیسی) کی طرح کہوں گا : تو ان سے پھر کہا جائے گا کہ یہ لوگ آپ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ہر لمحہ پیچھے ہوتے رہے۔