قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
تو کہہ اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور اس قوم کے خیالات نہ مانو جو پہلے گمراہ اور بہتوں کو بہکا گئے اور آپ سیدھی راہ سے بھٹک گئے (ف ١)
104۔ عقائد نصاری کے بطلان کی توضیح کے بعد انہیں حق کی اتباع اور باطل میں غلو سے دور رہنے کی نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے اہل کتاب ! حد سے تجاوز نہ کرو، اور جن کی تعظیم کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ان کے بارے میں اتنا غلو نہ کرو کہ انہیں مقام نبوت سے ہٹا کر مقام الوہیت تک پہنچا دو، جیسا کہ تم نے مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ کیا، اور اپنے ان گمراہ علماء کی اتباع نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی راہ حق سے بھٹکا دیا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ دین میں غلو جائز نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے لوگ طہارت میں غلو کرتے ہیں، اور شریعت میں جو کچھ ثابت ہے اس سے آگے بڑھ جانا تقوی سمجھتے ہیں اور جیسا کہ بہت سے لوگ صالحین اور ان کی قبروں کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں اور بتوں کی طرح ان کی پرستش کرتے ہیں۔ امام احمد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، تم لوگ دین میں غلو کرنے سے بچو، اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، اور امام بخاری نے عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا میری تعریف میں حد سے آگے نہ بڑھو، جیسا کہ نصاری نے ابن مریم کے ساتھ کیا، میں تو اللہ کا ایک بندہ ہوں اس لیے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔