قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
تو کہہ کیا تم خدا کے سوا اسے پوجتے ہو جس کے اختیار میں نہ تمہارا نفع ہے اور نہ نقصان اور وہی اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے (ف ٢)
103۔ یہ عقیدہ نصاری کے بطلان کی ایک دوسری دلیل ہے۔ آیت میں ما اسم موصول ہے، جس سے مراد عیسیٰ اور ام عیسیٰ ہیں کہ یہ دونوں نہ کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، سب کچھ کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اگر مخلوق کو کوئی قدرت حاصل ہے تو اللہ کی دی ہوئی ہے، اس لیے عیسیٰ اور ام عیسیٰ بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اور اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن میں من کے بجائے ما استعمال کیا گیا ہے جو غیر ذی روح کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی ان دونوں کی حیثیت دیگر تمام اشیاء کی مانند ہے جن کے اندر کوئی قدرت نہیں ہوتی ہے۔ صاحب فتح البیان نے لکھا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ حیثیت تھی (جو نبی تھے) تو اولیاء کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے ظاہر ہے