سورة المآئدہ - آیت 39

فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

پھر جس نے اپنے قصور کئے پیچھے توبہ کی اور سنور گیا تو اللہ اس کو معاف کرتا ہے بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

52۔ آیت میں ظلم سے مراد چوری ہے، اور مفہوم یہ ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور اسے آخرت میں اس چوری کے بدلے میں سزا نہیں دے گا، لیکن دنیا میں چوری کی حد اس سے ساقط نہیں ہوگی، جیسا کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کے پاس ایسے لوگ تائب ہو کر آتے تھے جن پر حد واجب ہوتی تھی، تو آپ ان پر حد جاری کرتے تھے۔ دارقطنی، حاکم اور عبدالرزاق وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک چور رسول اللہ ( ﷺ) کے پاس لایا گیا تو آپ کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹا گیا، اس کے بعد آپ نے اس سے کہا کہ توبہ کرو، تو اس نے کہا کہ میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ نے تیری توبہ قبول کرلی، معلوم ہوا کہ توبہ کرلینے سے حد ساقط نہیں ہوتی، لیکن قیامت کے دن اس کی وجہ سے اسے سزا نہیں دی جائے گی البتہ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر چور کا معاملہ حاکم تک پہنچنے سے پہلے اسے معاف کردیا جاتا ہے تو اس سے حد ساقط ہوجائے گی۔