قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
تو کہہ اے کافرو
(1/2/3/4/5) محمد بن اسحاق نے سعید بن مینا سے روایت کی ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف نے رسول اللہ (ﷺ) سے ملاقات کی اور کہا، اے محمد ! آؤ ہم تمہارے معبود کی پرستش کریں اور تم ہمارے معبودوں کی پرستش کرو، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ ﴿ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ Ĭ نازل فرمائی ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت اور سورۃ الزمر کی آیات (64/65/66) ﴿ قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ، بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ Ĭ نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرمایا : اے میرے نبی ! آپ ان کافروں سے جو آپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی پرستش کیجیے اور وہ آپ کے معبود کی معبود کی عبادت کریں کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ہرگز تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کروں گا اور نہ تم میرے اللہ کی پرستش کرو گے، تمہارے بارے میں اللہ کا ایسا ہی فیصلہ ہے اور میں مستقبل میں بھی ہرگز تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کروں گا اور نہ تم میرے اللہ کی مستقبل میں پرستش کرو گے، اس لئے کہ میرے رب کا تمہارے بارے میں تمہاری نیت اور عمل کے فساد کے سبب یہی فیصلہ ہے کہ تمہاری موت کفر پر ہو، تاکہ تم جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ ان آیات میں تکرار سے مقصود تاکید ہے، تاکہ جن کافروں نے آپ (ﷺ) کو بتوں کی پرستش کا مشورہ دیا تھا وہ قطعی طور پر اس بات سے ناامید ہوجائیں کہ نبی کریم (ﷺ) ان کے بتوں کی عبادت کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ ﴿لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ Ĭ سے مراد فعل کی نفی ہے، اس لئے کہ یہ جملہ فعلیہ ہے اور ﴿وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ Ĭ سے مراد بتوں کی عبادت کو قبول کرنے کی قطعی نفی ہے، اس لئے جملہ اسمیہ کے ذریعہ نفی زیادہ قوی اور موکد ہوتی ہے، گویا آپ (ﷺ) نے بتوں کی عبادت واقع ہونے کی نفی کردی اور کسی بھی صورت میں اس کے امکان کی بھی نفی کردی۔