وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور ہرگز عورتوں میں عدل نہ کرسکو گے ۔ اگرچہ تم اس کی حرص کرو تو بالکل ایک ہی طرف نہ جھکو کہ ڈال رکھو ایک کو جیسے ادھر میں لٹکتی اور اگر صلح کرو اور پرہیزگاری کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (ف ١)
125۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ اے لوگو ! تم ہزار کوشش کے باجود اپنی بیویوں کے درمیان پوری طرح مساوات نہیں برت سکتے۔ ابن عباس مجاہد اور حسن بصری وغیرہم نے یہی تفسیر بیان کی ہے، مسند احمد میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کے درمیان باری کی تقسیم میں پورا انصاف برتتے، پھر کہتے کہ اے اللہ ! جس چیز کا مالک میں ہوں اسے میں نے تقسیم کردیا، اور جس کا مالک تو ہے میں نہیں، (یعنی دل) اس کے جھکاؤ کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے کہ اگر کسی ایک بیوی کی طرف تمہارا میلان ہو، تو اس میں تمہیں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دوسری کو آسمان و زمین کے درمیان لٹکی ہوئی چھوڑ دو، اصحاب سنن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک طرف پورے طور پر جھک جائے، تو قیامت کے دن اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنے امور کی اصلاح کرلو گے، باری کی تقسیم میں عدل سے کام لوگے، اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے