وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا
اور تجھ سے عورتوں کے بارہ میں (ف ٢) فتوی مانگتے ہیں تو کہہ ان کے بارہ میں خدا تمہیں فتوی دیتا ہے اور جو کچھ تم پر پڑھا جاتا ہے کتاب میں ان یتیم عورتوں کی بابت جن کے لکھے (ہوئے) حقوق تم نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنے پر راغب ہو اور ناتواں لڑکوں کے بارہ میں اور وہ یہ کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی تم کرو گے اللہ اس کو خوب جانتا ہے ۔ (ف ١)
123۔ اس آیت کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم (ﷺ) سے عورتوں کے بارے میں سوال کیا کہ میراث اور دیگر امور میں ان کے کیا حقوق ہیں؟ تو یہ آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کر کے فرمایا، آپ کہہ دیجئے کہ عورتوں سے متعلق جو مسائل بیان نہیں کیے گئے ہیں، ان کے بارے میں تمہیں اللہ فتوی دیتا ہے، اور جو مسائل پہلے سے گذشتہ آیتوں میں بیان کیے جا چکے ہیں تو وہ آیتیں تمہیں فتوی دیتی ہیں، جس کی تلاوت تم پہلے سے اسی سورت کی ابتدا میں کر آئے ہو، یعنی اللہ کا فرمان، İوَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُوا فِي الْيَتامى فَانْكِحُوا مَا طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِĬ اور اس کے بعد والی آیتیں۔ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے İوَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواĬ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ یتیم لڑکی کے بارے میں ہے، جو اپنے ولی کی زیر نگرانی ہو، اور اس کے مال میں شریک ہو، اور اس کا وہ ولی اس کے مال و جمال کی وجہ سے اس سے شادی کرنا چاہے، لیکن اسے مناسب مہر نہ دینا چاہے، اللہ تعالیٰ نے اسے منع فرمایا کہ وہ اس کے مہر میں انصاف کیے بغیر اس سے شادی نہ کرے۔ عروہ کہتے ہیں، عائشہ (رض) نے کہا کہ لوگوں نے اس آیت کے بعد بھی رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا تو آیتİ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ Ĭنازل ہوئی۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کا فرمان İوَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ Ĭاس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جس کا ولی اس کے خوبصورت نہ ہونے کی وجہ سے اس سے شادی نہ کرنا چاہے، اور نہ کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی کرنے پر آمادہ ہو، کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ دوسرا آدمی اس کے مال میں شریک ہوجائے گا، اس لیے اسے زندگی بھر کے لیے شادی سے روک دیتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جس طرح عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، اسی طرح چھوٹے بچوں کو بھی حصہ نہیں ملتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کمزور بچوں کو بھی ان کا حصہ دو، جیسا کہ اللہ نے ابتدائے سورت میں فرمایا ہے İيُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ Ĭ۔ اولاد کے بارے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ مذکر کو مؤنث کے دوگنا دیا جائے، اور یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو، جیسا کہ اللہ نے ابتدائے سورت میں فرمایا ہے۔İ وَآتُوا الْيَتامى أَمْوالَهُمْĬ کہ یتیموں کو ان کا مال دے دو۔