سورة البقرة - آیت 54

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم تم نے بچھڑا بنا کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، اب اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو اور اپنی جانوں کو مار ڈالو ، تمہارے پیدا کرنے کے نزدیک تمہارے لئے یہی بات بہتر ہے ۔ پھر وہ تم پر متوجہ ہوا ، بیشک وہی معاف کرنے والا مہربان ہے (ف ٢)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

107: گذشتہ آیتوں میں جس عفو و مغفرت کا ذکر ہوا اس کی تفصیل یہاں بیان کی گئی ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ہمارے اس گناہ کی توبہ کیا ہے۔ تو موسیٰ نے کہا تم میں سے بعض بعض کو قتل کریں۔ چنانچہ انہوں نے چھریاں لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ستر ہزار آدمی قتل ہوگئے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ انہیں حکم دو کہ اب قتل کرنا بند کردیں، جو قتل ہوگئے انہیں معاف کردیا گیا، اور جو باقی رہ گئے ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ لاوی بن یعقوب کی اولاد نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کو قتل کریں جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے سب کی توبہ قبول کرلی۔ یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ موحدین نے مشرکین کو اللہ کے حکم سے قتل کیا تھا۔