لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
معاملہ نہ تو مسلمانوں کی آرزو کے موافق ہوگا نہ اہل کتاب کی آرزو کے موافق جو کوئی بدی کریگا اس کی سزا پائے گا اور اپنے لئے خدا کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہ پائے گا ۔ (ف ١)
120۔ آیات 123، 124 کے سبب نزول کے بارے میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے مسروق سے روایت کی ہے کہ نصاری اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں اپنی اپنی خوبیوں پر فخر کیا، اور دونوں نے کہا کہ ہم لوگ تم لوگوں سے افضل ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اے مسلمانو ! اور اے اہل کتاب ! کسی کے افضل ہونے کا تعلق اس کی خوش کن تمناؤں سے نہیں ہے، اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کوئی اچھا نہیں ہوجاتا، انسان کے اچھا یا برا ہونے کا تعلق اس کے عمل سے ہے، جس کے اعمال برے ہوں گے، شرک اور دوسرے گناہوں کا مرتکب ہوگا، اسے اس کا بدلہ ملے گا، اور جو شخص عمل صالح کرے گا، موحد ہوگا اور عبادتوں میں زندگی گذارے گا، تو اس کا شمار نیک لوگوں میں ہوگا، اور جنت اس کا مقام ہوگا۔ امام احمد نے ابوبکر بن ابوزہیر سے روایت کی ہے کہ ابوبکر (رض) نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! اس آیت کے بعد اب کون نجات و فلاح کی امید کرسکتا ہے، کہ ہر برائی کا بدلہ مل کر رہے گا؟ تو آپ نے فرمایا : اے ابوبکر اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے، کیا آپ کو غم لاحق نہیں ہوتا، کیا آپ کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی؟ ابوبکر نے کہا، ہاں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ بھی تو بدلہ ہی ہے، بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، مسلمان کو جب بھی کوئی تکلیف مصیبت، بیماری غم یا پریشانی لاحق ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔