وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
اور نہیں ضرور گمراہ کروں گا اور باطل امیدوں میں ڈالوں گا اور ان حکمرانی کروں گا پس وہ چارپایوں کے کان چیرا کریں گے اور میں انہیں حکم دوں گا سو وہ خدا کی پیدائش تبدیل کریں گے اور جس نے خدا کے سوا شیطان کو دوست بنایا وہ صریح نقصان میں جا پڑا (ف ٢)
117۔ ابلیس ہی کا قول بیان کیا جا رہا ہے کہ میں انہیں راہ راست سے بھٹکاؤں گا، انہیں لمبی چوڑی تمناؤں کے ذریعہ بہکاؤں گا، جیسے کہ ابھی لمبی عمر پڑی ہے اور بڑی بڑی امیدوں کے ذریعہ بہکاؤں گا، انہیں تیرے حکم کے خلاف حکم دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان میں سوراخ کر کے، انہیں حرام قرار دے دیں، جنہیں تو نے حلال کیا ہے (زمانہ جاہلیت کا طریقہ تھا کہ جب اونٹنی پانچواں بچہ مذکر دیتی تو اس کا کان چھید کر آزاد چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ کسی پانی یا چراہ گاہ اسے اسے روکتے) اور انہیں حکم دوں گا پس وہ اللہ کی تخلیق کو بدلیں گے، اس تبدیلی خلق کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خصی کرنا، آنکھ پھوڑ دینا اور کان کاٹ دینا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد شمس و قمر، پتھروں اور دیگر مخلوقات کی پرستش ہے، کہ اللہ نے تو انہیں کسی اور کام کے لیے پیدا کیا تھا مگر مشرکوں نے انہیں معبود بنا لیا، بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانا ہے، کسی نے کہا ہے کہ اس سے مراد عورت کی مشابہت اختیار کرنی ہے، اور کسی نے کہا ہے کہ اس سے مقصود دین اسلام کو بدل دینا ہے ۔ حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت خصی کرنے، گودنا کروانے، اضافی بال جوڑنے، دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے اور چہرے کے بال اکھاڑنے کی حرمت پر دلیل ہے ۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ خلق اللہ سے مراد انسان کا چہرہ، صورت اور صفت ہے۔ اور آزاد کردہ نر اونٹ کی آنکھ پھوڑ دینا، غلاموں کو خصی کرنا، گودنا کروانا اور گال پر زینت کے لیے نشان بنوانا، لواطت، سحاق (دو عورتوں کا آپس میں جنسی خواہش پوری کرنا) شمس و قمر کی عبادت، اسلام میں تبدیلی لانا، اور اعضاء و جوارح کو غیر مفید کاموں میں استعمال کرنا جس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو، یہ سبھی صورتیں اس آیت کے ضمن میں آتی ہیں۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے جانوروں کے خصی کرنے کو اس غرض سے جائز کہا ہے کہ وہ موٹے ہوں اور ان کے گوشت میں اضافہ ہو، بعض علماء نے اسے مکروہ جانا ہے، البتہ انسان کو خصی کرنا تمام علماء کے نزدیک حرام ہے۔ قرطبی لکھتے ہیں، اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ انسان کا خصیہ نکال دینا حرام ہے اور ایسا کرنا اللہ کی تخلیق کو بدل دینا ہے۔