الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے
(9)اور جو آسمانوں اور زمین کا تنہا مالک اور بادشاہ ہے جو اپنے بندوں کے ہر قول و عمل پر مطلع ہے، آسمانوں اور زمین کے درمیان ایک ذرہ بھی اس کے علم سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے، اور وہ یقیناقیامت کے دن ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اللہ جل جلالہ کے ان صفات کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اس پر ایمان لائیں اسی کی اطاعت و بندگی کریں، اسی سے محبت کریں اور اسی سے ڈریں، نہ کہ کفر کی راہ اختیار کریں اور اس کے مومن بندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائیں، جیسا کہ اصحاب اخدود نے اپنے زمانےکے اہل ایمان کے ساتھ برتاؤ کیا کہ انہیں بے دردی کے ساتھ دہکتی آگ میں ڈال دیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ سورت مکی دور میں نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام کی ہمت افزائی اور انہیں صبر کی تعلیم دینے کے لئے نازل ہوئی تھی کہ جس طرح گزشتہ زمانہ میں اصحابہ اخدود کے ظلم و ستم پر اس عہد کے مومنوں نے صبر کیا اور آگ میں جلایا جانا برداشت کرلیا، لیکن اپنے ایمان سے دست بردار نہیں ہوئے، اسی طرح نبی کریم (ﷺ) اور ان کے صحابہ کو بھی اہل مکہ کے ظلم و ستم پر صبر کرنا چاہئے اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنا چاہئے اور انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ مکہ کے کفار مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور بے دردی کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اصحاب اخدود کی طرح لعنت کے مستحق ہیں۔