سورة النسآء - آیت 91

سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اب تم ایک دوسری قوم کو پاؤ گے کہ وہ تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ جب وہ فساد کرنے کے لئے بلائے جاتے ہیں تو اس ہنگامہ میں الٹ پڑتے ہیں پس اگر وہ تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور تم سے صلح کا پیغام نہ ڈالیں اور اپنے ہاتھ تم سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو ، اور یہی لوگ ہیں کہ ہم نے ان پر تمہیں ظاہر غلبہ دیا ہے ۔ (ف ١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

98۔ اس آیت کریمہ میں ایک تیسرے قسم کے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے، جو بہت ہی بدترین قسم کے منافقین تھے اور ان کی نیت مذکورہ بالا جماعت منافقین و کفار سے مختلف تھی، یہ لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صحابہ کرام کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی جانب سے ان کی جان، مال اور ان کی اولاد محفوظ رہے، اور اندر اندر کافروں کے ساتھ دوستی رکھتے تھے، اور ان کے بتوں کی پوجا کرتے تھے، تاکہ ان کی مخالفت مول نہ لیں۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل مکہ میں سے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو دوغلی پالیسی پر عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا۔ امام رازی نے لکھا ہے، بہتوں کے نزدیک یہ آیت دلیل ہے کہ جو کفار صلح کی خواہش کا اظہار کریں اور مسلمانوں کو ایذ انہ پہنچائیں تو ان سے قتال کرنا جائز نہیں ہے۔