فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ
پھر جب کان پھوڑنے والی آئے گی
(33/34/35/36/37))مذکورہ آیتوں میں انسان کی تخلیق اور اس کی دنیاوی زندگی پر روشنی ڈالی گئی تھی اور اسے غور و فکر کی دعوت دی گئی تھی، اب اس کی اخروی زندگی اور اس کے اچھے اور برے انجام کو بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت آجائیگی جس کے صور کی آواز اتنی تیز اور کرخت ہوگی کہ لوگوں کے کان بہرے ہو رہے ہوں گے تو رعب و دہشت کے مارے ہر آدمی اپنے حال میں ایسا پریشان ہوگا اور ہر ایک کو اپنی نجات کی ایسی فکر ہوگی کہ وہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی میدان محشر میں دیکھ کر راہ فرار اختیار کرے گا یا تو اس ڈر سے بھاگے گا کہ کہیں کوئی اس سے کسی حق کا مطالبہ نہ کر دے، یا اس لئے کہ کوئی اس کی پریشانی اور بے چینی کو نہ دیکھ لے، یا اس لئے کہ اس معلوم ہوگا کہ آج کوئی اس کے کام نہیں آئے گا، تو پھر اسکی طرف التفات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔