سورة النسآء - آیت 86

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب تم دعا سلام کئے جاؤ (ف ٢) تو اس کا جواب دعا کے ساتھ اس سے بہتر لفظوں میں دو یا وہی لفظ واپس کرو ، بیشک خدا ہر شے کا حساب لینے والا ہے ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

93۔ جہاد سے متعلق آیتوں کے درمیان سلام و تحیہ کا ذکر شاید اس مناسبت سے ہے کہ ابھی چند ہی آیتوں کے بعد آیت 94 میں یہ حکم بیان کیا جائے گا کہ اگر کوئی کافر میدان کارزار میں تمہیں سلام کرے اور اس بات کا شارہ دے کہ وہ مسلمان ہے تو یہ کہہ کر رد نہ کردو کہ تم مسلمان نہیں ہو، اور مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے اسے قتل نہ کردو۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ یا کم از کم اسی جیسے کلمات استعمال کریں۔ اس آیت سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ سلام کا جواب مسلمان اور کافر سب کو دینا واجب ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ وہ کافر کے سلام کا جواب وعلیکم السلام کے ذریعے دیتے تھے، اور رحمۃ اللہ کا اضافہ نہیں کرتے تھے۔ اور شعبی نے ایک نصرانی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے وعلیک السلام ورحمۃ اللہ کہا، ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ کیا وہ اللہ کی رحمت کے زیر سایہ زندہ نہیں ہے۔ لیکن صحیحین میں انس (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو وعلیکم کہو، البتہ ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک مجلس کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، یہود اور بت پرست سبھی تھے اور آپ نے انہیں سلام کیا ۔ مسلمانوں کے درمیان سلام کو عام کرنے کی فضیلت بہت سی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں سلام کے دونوں صیغے سلام عیلیم اور السلام علیکم آئے ہیں۔ لیکن زیادہ تر نکرہ یعنی بغیر الف لام کے آیا ہے، اس لیے سلام علیکم، السلام علیکم سے زیادہ بہتر ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ سلام کرنا سنت ہے، اور جواب دینا فرض ہے، ان حضرات نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے، اور اس کا سبب یہ بھی ہے کہ سلام کا جواب نہ دینے میں مسلمان کی اہانت ہے، جو حرام ہے۔ حسن بصری اور سفیان ثوری وغیرہما کا یہی قول ہے۔