يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا
جس دن روح اور فرشتے قطار باندھ کر کھڑے ہوں گے اس دن سوائے اس کے جسم رحمن حکم دے اور وہ ٹھیک بولے اور کوئی نہ بول سکے گا
(38)جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی کلام نہ کرسکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور وہ ٹھیک بات زبان سے نکالے۔ آیت (38)میں ” روح“ سے مراد (قول راجح کے مطابق) جبریل (علیہ السلام) ہیں، جنہیں سورۃ البقرہ کی آیات (87 اور 253)میں، سورۃ المائدہ کی آیت (110)میں اور سورۃ النحل کی آیت (102) میں (روح القدس) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم اللہ تعالیٰ میدان محشر میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بات کریں گے، عرش کے نیچے سجدے میں گر جائیں گے اور اللہ کی ایسی تعریفیں کریں گے جو اللہ ان کے دل میں اسی وقت ڈالے گا، تب اللہ عزو جل ان سے کہے گا :” اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا، اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ “