عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ
اس بڑی چیز سے
(2)پھر کہا ﴿عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ Ĭ یعنی جس بعث بعد الموت اور قیامت کے بارے میں وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں وہ تو بڑا ہی عظیم دن ہوگا اور اس کی خبر بڑی ہی عظیم خبر ہے۔ مجاہد وغیرہ نے ” نباء عظیم“ سے مراد قرآن کریم ہے اور اس پر استدلال آیت (3) ﴿الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ Ĭ سے کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کے بارے میں ہی اختلاف کیا تھا، کسی نے اسے جادو کسی نے شعر کسی نے کہانت، اور کسی نے اسے اقوام گزشتہ کے قصے کہا تھا ان دنوں ” بعث بعد الموت“ کے انکار پر تو تمام کفار متفق تھے شوکانی لکھتے ہیں کہ ” نباء عظیم“ سے مراد قرآن کریم ہونے کی دلیل سورۃ ص کی آیات (67/68)ہیں جن میں قرآن کریم کو ” نباء عظیم“ کہا گیا ہے۔ جن لوگوں نے ” نباء عظیم“ سے مراد ” بعث بعد الموت“ لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مردوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا ہی وہ بات تھی جس کا مشرکین انکار کرتے تھے اور جسے ان کی جاہلانہ عقل قبول نہیں کرتی تھی ۔