سورة البقرة - آیت 48

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی (نافرمان منکر) کسی دوسرے مجرم (منکر) کے کچھ بھی کام نہ آئیگا اور نہ اسکی طرف سے نہ شفاعت (سفارش) قبول ہوگی اور نہ اس کے بدلے میں کچھ لیا جائیگا اور نہ انکو مدد پہنچے گی (ف ١) ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

102: یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ اگر تم لوگ میرے رسول اور اس پر نازل کردہ کتاب پر ایمان نہ لائے اور اسی حال میں قیامت کے دن ہمارا سامنا ہوا تو نہ کوئی رشتہ دار اس دن کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش، اور نہ ہی عذاب سے جان بر ہونے کے لیے کوئی معاوضہ یا رشوت ہی قبول کی جائے گی، اور نہ کوئی تمہاری مدد کے لیے آگے آئے گا۔ ہر تعلق، ہر رشتہ داری اور ہر سفارش بے کار ثابت ہوگی، اس دن فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا، اور بروں کو ان کی برائی کا اور اچھوں کو ان کی اچھائی کا دس گنا بدلہ دے گا۔ فائدہ : آیت میں شفاعت کی نفی کافروں کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے ، یعنی کافروں کو کسی کی شفاعت کام نہ دے گی،( المدثر، 48)۔ اور جہنمی کہیں گے، یعنی کوئی ہماری شفاعت کرنے والا نہیں۔( الشعراء، 100)۔ مؤمنوں کے لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شفاعت ثابت ہے، یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، اور قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مؤمنین موحدین کے لیے شفاعت کریں گے، اور اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائیں گے۔