فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا
پھر اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ بلائیں گے اور تجھے (اے محمد ﷺ) ان مسلمانوں پر گواہ لائیں گے۔ (ف ٣)
48۔ اس آیت میں گذشتہ آیت کے مضمون کی مناسبت سے، قیامت کی ہولناکیوں اور اس دن کی پریشانیوں کا ذکر ہوا کہ اہل کفر اور اہل شر و فساد کا اس دن کیسا حال ہوگا، جب ہر امت کے گواہ کی حیثیت سے اس کے رسول کو بلایا جائے گا جو گواہی دے گا کہ انہوں نے کیا اعمالِ صالحہ کیے، یا کیسے کیسے کفر و سرکشی کا ارتکاب کیا، تاکہ اس شہادت کے مطابق ان کا حساب ہو، اور رسول اللہ (ﷺ) کو ان کی امت کے گواہ کی حیثیت سے بلایا جائے گا، تاکہ مؤمن و کافر اور موحد و مشرک کا پتہ چلے، اور تاکہ آپ (ﷺ) گواہی دیں کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی اسے بے کم و کاست ادا کردیا تھا۔ بخاری ومسلم نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے کہا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ تو میں نے کہا میں آپ کو سناؤں اور آپ ہی پر نازل ہوا ہے، آپ نے کہا، ہاں، میں دوسروں سے قرآن سننا پسند کرتا ہوں۔ تو میں نے سورۃ نساء پڑھناشروع کیا، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچا İ فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداًĬ تو آپ نے کہا کہ اب بس کرو، تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھا۔ امام مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں گواہ رہا، جب تک ان کے درمیان رہا۔