سورة الممتحنة - آیت 8

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو لوگ تم سے دین پر نہیں لڑے اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ۔ ان سے (میل ملاپ رکھنے سے) خدا تمہیں منع نہیں کرتا (یعنی ان سے منع نہیں کرتا) کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے منصفانہ (ف 1) برتاؤ کرو ۔ بےشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(8) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو اپنے ان رشتہ داروں اور اہل تعلق کے ساتھ دوستی اور صلہ رحمی کی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نہیں نکالا۔ اور آیت کا سبب نزول اگرچہ مشرکین مکہ ہیں لیکن یہ حکم تمام کافروں کے لئے عام ہے ابن جریر اور قرطبی وغیرہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور اس رائے کو مرجوح قرار دیا ہے کہ یہ حکم ” مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو“ کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے اس لئے کہ امام احمد اور بخاری و مسلم نے اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کی ماں (قتیلہ) صلح حدیبیہ کے بعد تحفے اور ہدیے لے کر ان سے ملنے کے لئے آئی اور ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھی، تو انہوں نے اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا اور جب عائشہ (رض) نے اس کے بارے میں نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرک رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اجازت دی، جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کی تھی اور انہیں ان کے گھروں سے نہیں نکالا تھا اور ان صنادید قریش مشرکوں سے قطع تعلق کا حکم دیا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیاتھا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا تھا