سورة الواقعة - آیت 75

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

پھر میں تاروں (ف 1) کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(23) ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کے منازل اور ان کے نکلنے اور ڈوبنے کی جگہوں کی قسم کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرانی چاہی ہے کہ یہ قرآن بہت ہی قابل احترام کتاب ہے، جو لوح محفوظ میں ہر تغیر و تبدیلی سے محفوظ ہے اور اسے صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔ ” مواقع النجوم“ کی ایک دوسری تفسیر ابن عباس (رض) سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کے حصے ہیں، یعنی پورا قرآن شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا پھر وہاں سے جبریل (علیہ السلام) نے 23 سال کی مدت میں نبی کریم (ﷺ) پر نازل کیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت و بڑائی بیان کرنے کے لئے اس کی کیفیت نزول کی قسم کھائی ہے۔