وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
اور جب خدا نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ تم اس کتاب کا بیان لوگوں سے کرو گے اور اسے نہ چھپاؤ اور انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے مقابلہ میں حقیر قیمت خریدی سو انہوں نے کیسی بری شے خرید کی (ف ١)
125۔ یہاں سیاق کلام علمائے یہود و نصاری سے متعلق ہے، اللہ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ تورات و انجیل کے تمام احکام اور تمام باتیں لوگوں کو بتائیں گے اور کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ ان میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی صفات بھی تھیں اور یہ حکم بھی کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، اور دنیاوی حقیر فائدوں کی خاطر اللہ کے کلام کو بدل دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں علماء پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ حق کو کھول کھول کر بیان کریں، اور کسی دنیاوی مفاد کی خاطر اللہ کے دین کی صحیح باتوں کو امت سے نہ چھپائیں، بہت سے لوگ جو عالم دین کہلاتے ہیں، اور کسی فقہی مسلک کے لیے اندھی عصبیت کی وجہ سے صحیح احادیث کو چھپاتے ہیں، یا وہ لوگ جو اپنے پیٹ یا کرسی کی خاطر امت میں ایسی بدعتوں کو رواج دیتے ہیں، جن کا کوئی ثبوت قرآن وسنت سے نہیں ملتا، یا وہ دنیا دار علماء جو کسی حاکم وقت کو خوش کرنے کے لیے شرعی مسائل کو بدل دیتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں سب قرآن و سنت کے خلاف ہے، اس قسم کے تمام نام نہاد علمائے دین اس آیت میں بیان کردہ وعید میں شامل ہیں ۔