مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اور خدا ایسا نہیں کہ وہ مومنوں کو اسی حالت پر چھوڑے رکھے جس پر تم اب ہو ۔ یہاں تک کہ وہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے ، اور خدا ایسا نہیں ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے (ف ١) لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے (غیب کی خبر کے لئے) چن لیتا ہے سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔
119۔ جیسا کہ اوپر گذر چکا کہ غزوہ احد کے بعد منافقین تقریباً ظاہر ہوگئے اور اپنے دل کی باتیں اگلنے لگے، اور لوگ (کافر، مؤمن اور منافق) تین گروہوں میں بٹ گئے، اور مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے گھروں میں اور ان کے ساتھ بھی ان کے دشمن موجود ہیں، اس لیے احتیاط کرنے لگے، اور اپنے آستین کے سانپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے لگے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں غزوہ احد کی اسی حکمت کو بیان کیا ہے کہ مؤمن و منافق کی تمیز کیے بغیر مسلمانوں کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا، اور غیب کی کسی کو خبر ہو نہیں سکتی تھی، اس لیے کہ غیب کی خبر تو اللہ صرف اپنے رسولوں کو دعوتی حالات کے تقاضے کے مطابق ہی دیتا ہے۔ لیکن غزوہ احد کے بعد کے حالات نے از خود منافقین کو مسلمانوں سے جدا کردیا۔