سورة الجاثية - آیت 14

قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو ایمانداروں کو کہہ کہ جو لوگ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے ان کو معاف کریں ۔ تاکہ اللہ ایک قوم کو ان کی کمائی کے موافق سزا دے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(9) مکی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ اگر انہیں مشرکین قریش کی طرف سے اذیت پہنچتی ہے تو عفو و درگزر سے کام لیں، اور انتقام لینے کی نہ سوچیں۔ دعوت الی اللہ کی راہ میں حکمت و دانائی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر بالفرض مسلمانوں میں انتقام لینے کی طاقت بھی ہے تب بھی ایسا نہ کریں۔ ﴿ أَيَّامَ اللَّهِ﴾ کی تفسیر بعض نے ” اقوام گزشتہ پر عذاب الٰہی“ کیا ہے، بعض نے ” مطلق اللہ کا عذاب“ مراد لیا ہے، اور بعض نے اس سے مراد ” بعث بعد الموت“ لیا ہے۔ آیت میں مذکور عفو و درگزر کا صلہ یہ بتایا گیا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے اس نیک عمل کا اچھا بدلہ دے گا۔ ﴿ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾ کا دوسرا مفہوم یہ کیا گیا ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ دے گا یعنی اے مومنو ! تم ان سے انتقام لینے کی نہ سوچو، ان کی ایذا رسانیوں کا بدلہ انہیں ہم دیں گے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ عفو و در گزر کا یہ حکم جہاد کے حکم کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے۔