سورة آل عمران - آیت 156

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

مومنو ! تم ان کافروں کی مانند نہ بنو جو اپنے بھائیوں کے حق میں جب وہ سفر کونکلیں ، ملک میں یا جہاد میں ہوں ‘ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ رہتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے ، تاکہ ان کے دلوں میں اس بات سے حسرت پیدا کرے ، حالانکہ اللہ ہی جلاتا اور مارتا ہے اور خدا تمہارے کام دیکھتا ہے ۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

108۔ یہاں اہل کفر سے مراد منافقین ہیں، جنہوں نے واقعہ احد کے بعد کہا کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور مدینہ سے باہر جا کر دشمنوں سے جنگ نہ کرتے تو اتنے لوگوں کا قتل نہ ہوتا اور اتنے لوگ زخمی نہ ہوتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہمارے یہ نظریاتی یا خاندانی بھائی سفر میں نہ جاتے یا جنگ میں شریک نہ ہوتے، اپنے گھروں میں رہتے تو انہیں موت لاحق نہیں ہوتی اور قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ اپنی زبان اور دل کی حفاظت کریں۔ نہ دل میں ایسا اعتقاد رکھیں اور نہ ہی زبان پر ایسے کلمات لائیں، کیونکہ ایسے عقیدہ سے صرف منافقین کی حسرت میں اضافہ ہوتا ہے، فائدہ کچھ نہیں ہوتا، اس لیے کہ موت اور زندگی کا مالک اللہ ہے۔ اس نے جس کی موت جب، جس طرح اور جہاں لکھ رکھی ہے، اسی وقت، اسی طرح اور اسی جگہ آئے گی، حضرت خالد بن ولید (رض) نے بستر مرگ پر کہا تھا کہ میرے جسم میں ایک بالشت جگہ بھی تلوار یا نیزے کے نشان سے خالی نہیں اور اب میں اونٹ کی طرح بستر مرگ پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھوں سے نیند اڑ جائے۔