وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور ان کا قول صرف یہی تھا کہ انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ اور جو زیادتی ہمارے کاموں میں ہم سے ہوئی تو معاف کر دے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور ہمیں کافر قوم پر مدد دے ۔
101۔ اللہ والے مجاہدین کی عملی خوبیاں بیان کرنے کے بعد ان کے قول کی خوبی بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تھے، توبہ و استغفار کرتے تھے، اور اپنے رب سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں ثبات قدمی عطا فرما اور دشمنوں پر غلبہ دے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے ہی دشمن غالب آجاتا ہے، اور شیطان کو مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کا موقع مل جاتا ہے، فتح و کامرانی کی شرط اول اللہ کی اطاعت و بندگی ہے، اسی لیے اللہ کے نیک بندوں نے کہا : انہیں معلوم تھا کہ ثبات قدمی اور نصرت و فتح اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اس لیے انہوں نے اللہ سے ثبات قدمی اور دشمن پر غلبہ کے لیے دعا کی۔ انتہی۔