سورة الشورى - آیت 13

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس نے تمہارے لئے دین کی وہ راہ مقرر کی جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تیری طرف وحی کی ہے اور جو ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا ۔ یہ کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو ، مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انہیں بلاتا ہے اللہ جسے چاہے اپنی طرف چن لے اور اپنی طرف اسے راہ دکھاتا ہے جو رجوع ہوتا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(9) آیت (13) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آپ پر اور آپ سے پہلے دیگر انبیاء پر اللہ نے وحی نازل کی ہے اس آیت کریمہ میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور ان چاروں اولوالعزم انبیاء کو جن کا اس آیت میں ذکر آیا ہے، ایک ہی بات کا حکم دیا ہے کہ صرف اسی ذات واحد کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت (25) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ ” ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا تو اس کو بذریعہ وحی یہی حکم دیا کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی لئے تم سب صرف میری ہی عبادت کرو“ اور صحیح بخاری، کتاب الانبیاء میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ ہم انبیاء ایک ماں کی اولاد کی مانند ہیں، ہمارا دین ایک ہے (یعنی ایک اللہ کی بندگی کرنا، اگرچہ ہماری شریعتیں مختلف رہی ہیں) آیت میں انہی پانچ اولوالعزم انبیاء کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ یہ حضرات بڑے انبیائے کرام تھے، ان کی شریعتیں بھی عظیم تھیں اور ان کے ماننے والے دنیا میں بہت بڑی تعداد میں ہوئے ہیں، نیز کافروں کے دلوں کو دین اسلام کی طرف مائل کرنا بھی مقصود ہے، اس لئے کہ ان انبیائے کرام میں بعض ایسے بھی ہیں جن کے نبی ہونے پر تمام کا اتفاق ہے اور ان کا دین بھی دین اسلام تھا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کا لوگوں کو توحید کی طرف بلانا کفار قریش پر بڑا ہی گراں گذرتا ہے، لیکن آپ ہمت نہ ہاریئے اور پورے عزم و ثبات کے ساتھ اللہ کا پیغام ان تک پہنچاتے رہئے، کون قبول کرتا ہے اور کون اسے رد کردیتا ہے یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ اپنی حکمت و مصلحت اور مرضی کے مطابق جسے چاہتا ہے ایمان باللہ کی توفیق دیتا ہے اور وہ اس عظیم خیر کو قبول کرنے کی توفیق اسے دیتا ہے جو اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اس کی بندگی کی راہ پر لگ جاتا ہے اور جو باطل پر اصرار کرتا ہے اسے ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔