وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ
اور کہا کہ جس چیز کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس سے ہمارے دل پردوں (ف 1) میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان پردہ ہے سو تو اپنا کام کر ہم اپنا کام کرتے ہیں
نبی کریم (ﷺ) نے انہیں جب بھی قرآن سنانا چاہا تو استہزاء کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دلوں پر کئی پردے پڑے ہیں تاکہ تم جس عقیدہ توحید اور بعث بعد الموت اور جزا و سزا کی بات کرتے ہو اسے ہم سمجھ نہ سکیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے، اس لئے نہ ہم تمہاری بات سنتے ہیں اور نہ جو تم کرتے ہو اسے دیکھ پاتے ہیں، اس لئے جس طرح ہم نے تمہیں چھوڑ رکھا ہے، تم بھی ہمیں چھوڑ دو اور ہمیں اپنا قرآن سنانے کی کوشش نہ کرو، تم اپنے دین پر چلتے رہو، اور ہم اپنے دین پر چلتے رہیں گے اور اپنے عقیدہ کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ ان مثالوں سے قرآن کریم کا مقصود یہ بتانا ہے کہ ان کے دل قبول حق سے کو سوں دور تھے اور چاہتے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) ان سے بالکل دور ہوجائیں اور کسی طرح کا اتصال نہ رکھیں۔