لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ‘ بھلائی کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتے اور جو تم خرچ کرتے ہو ‘ وہ اللہ کو معلوم ہے (ف ١)
67۔ گذشتہ آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کوئی چیز کافروں کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی، اور نہ اس دن صدقہ و خیرات کا موقع ہوگا۔ صدقہ وخیرات کی جگہ یہ دنیا ہے۔ اسلام لانے کے بعد یہاں جو آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، قیامت کے دن اسے پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مؤمنوں کی اسی طرف رہنمائی کی ہے کہ تم اللہ کی خوشنودی اور اس کی جنت کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اللہ کی راہ میں اپنا مرغوب و محبوب مال نہ خرچ کرو۔ بخاری و مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ مدینہ منورہ میں ابوطلحہ انصاری (رض) بہت مالدار آدمی تھے، اور ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کبھی کبھار اس میں داخل ہوتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں، آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کریں۔ تو آپ نے کہا کہ بہت خوب، یہ تو قیمتی مال ہے، جو تم نے کہا، میں نے سن لیا، میری رائے ہے کہ تم اسے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ تو ابوطلحہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔ حافظ ابوبکر بزار نے روایت کی ہے، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے یہ آیت سنی تو اپنے اموال پر غور کیا، میری سب سے قیمتی شے ایک روی لونڈی تھی، اسے میں اللہ کے لیے آزاد کردیا۔