يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں بھی) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدائے تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوا دیا ہے ۔ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور مومن عورت (بھی حلال ہے) اگر اپنی جان نبی کو بخش دے (ف 2) (یعنی بن مہر نکاح میں آنا چاہے) اگر نبی بھی اس کو نکاح میں لینا چاہے (توجائز ہے) یہ خاص تیرے ہی لئے ہے سوا اور ایمانداروں کے ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان پران کی بیویوں اور ان کے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے حق میں فرض کیا ہے تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
۔40 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے وہ اقسام بیان کئے ہیں جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) کے لئے حلال کئے تھے، ان میں سب سے پہلے وہ امہات المومنین تھیں جن سے آپ (ﷺ) نےمہر متعین کر کے شادی کی تھی، چاہے مہر مقدم ہو یا مؤجل ان کے بعد وہ بیویاں جو مال غنیمت کے طور پر آپ کے حصے میں آئی تھیں، جیسے صفیہ اور جویریہ، آپ (ﷺ) نے انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کرلی تھی اور ریحانہ اور ماریہ قبطیہ ام ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ (ﷺ) کے لئے وہ عورتیں بھی حلال تھیں جو خریدی گئی ہوں، یا جن عورتوں نے اپنے آپ کو نبی کریم (ﷺ) کے لئے ہبہ کردیا ہوجیسے میمونہ بنت الحارث، زینب بنت خزیمہ ام المساکین ام شریک بنت جابر اور خولہ بنت حکیم، آیت میں (مال غنیمت کے طور پر حاصل شدہ عورت) کی قید محض افضیلت بیان کرنے کے لئے ہے، یعنی ایسی عورتیں آپ کے لئے ان عورتوں سے افضل ہیں جو خریدی گئی ہوں اور آپ (ﷺ) کے لئے ان چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد عورتوں سے شادی جائز تھی، جو ہجرت کر کے مدینہ آگئی تھیں۔ ﴿خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ﴾میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ کسی ایسی عورت سے بغیر ولی اور مہر کے شادی کرلے جس نے اپنے آپ کو اس کے لئے ہبہ کردیا ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے مومنوں پر نکاح سے متعلق جو شروط عائد کئے ہیں ان کی پابندی لازم ہے اور جو باتیں اس بارے میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ خاص ہیں، وہ عام مسلمانوں کے لئے مثال نہیں بن سکتی ہیں، اس لئے ان کے لئے بیک وقت چار سے زیادہ عورتوں سے شادی جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ کوئی بغیر مہر، گواہان اور ولی کے کسی عورت سے شادی کرلے اور لونڈیوں سے متعلق شرط یہ ہے کہ وہ غزوہ کے بعد گرفتار کرلی گئی ہوں، کوئی ایسی عورت نہ ہو جسے گرفتار کرنا جائز نہ رہا ہو یا جس کی قوم کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ رہا ہو۔ آیت کے آخر میں آپ سے کہا گیا ہے کہ نکاح کی مذکورہ بالا قسمیں آپ کے لئے اس لئے حلال کی گئی ہیں تاکہ آپ کوئی تنگی نہ محسوس کریں۔