سورة الأحزاب - آیت 23

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنوں میں ایسے مرد بھی ہیں کہ جس بات پر انہوں نے اللہ سے عہد باندھا (ف 1) تھا ۔ اس نے سچ کر دکھایا اور بعض ان میں سے دور ہیں ۔ جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کرلیا ۔ (یعنی جہاد میں ہی جان دیدی جیسے شہداء بدر مثل انس بن النضر (رض) کے) اور بعض ان میں وہ ہیں جو (ابھی راہ دیکھ رہے ہیں جام شہادت پینے کی) اور انہوں نے اپنی وعدہ وفائی میں ایک ذرہ تبدیلی نہیں کی

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(20) ان مومنین مخلصین نے اللہ تعالیٰ سے جس صبر و ثبات قدمی کا وعدہ کیا تھا، اس میں سچے ثابت ہوئے، انہوں نے رسول اکرم (ﷺ) کے ساتھ جہاد کیا، عمل صالح کیا اور گناہوں سے بچتے رہے مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے مراد یا تو وہ انصار مدینہ میں جنہوں نے بیعتہ العقبہ میں ہر حال میں رسول اللہ (ﷺ) کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، یا وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر انہیں رسول اللہ کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا موقع ملا تو ثابت قدم رہیں گے اور راہ فرار نہیں اختیار کریں گے۔ چنانچہ ان میں سے بعض تو جنگ احد میں کام آگئے جیسے حمزہ مصعب بن عمیر اور انس بن النضر اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی اور جو بچ گئے جیسے عثمان بن عفان، طلحہ اور زبیر وغیرہ ہم وہ اللہ کی فتح و نصرت اور اس کی راہ میں شہادت کا انتظار کرتے رہے اور انہوں نے اپنے رب سے جو عہد و پیمان کیا تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی اور نہ ہی منافقوں کی طرح نقض عہد کیا، جس کی طرف اسی سورت کی آیت (15) میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان منافقوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ میدان کار زار میں دشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھلائیں گے۔