سورة البقرة - آیت 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بیشک خدا مچھر کی یا اس سے اوپر شئے کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا ۔ پھر وہ جو ایمان دار ہیں جانتے ہیں کہ وہ انکے رب کی طرف سے ٹھیک ہے ۔ لیکن جو کافر ہیں سو کہتے ہیں کہ اللہ کو ایسی مثال کی کیا غرض تھی ؟ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا اور بہتیروں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اور صرف فاسق (بدکار نافرمان) لوگوں کو ہی اس سے گمراہ کرتا ہے (ف ١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

52: حافظ ابن کثیر (رح) نے ابن مسعود (رض) وغیرہ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب منافقین کی دو مثالیں بیان کیں، جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں آچکا تو منافقین نے کہا اللہ اس سے برتر و بالا ہے کہ ایسی مثالیں بیان کرے تو مذکورہ آیت سے تک نازل ہوئی۔ 53: اللہ تعالیٰ حقیر ترین چیزوں (جیسے مچھر وغیرہ) کی مثال بیان کرنے میں بھی کوئی حیا محسوس نہیں کرتا، ان حکمتوں کے پیش نظر جو ان مثالوں میں ہوتی ہیں۔ چنانچہ اہل ایمان ان پر غور کرتے ہیں اور ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اگر ان پر ان کی حکمتیں نہیں بھی واضح ہوتی ہیں تو بھی وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مثالیں حق ہیں۔ 54: لیکن اہل کفر و عناد حیرانگی اور تردد میں پڑجاتے ہیں اور ان کے کفر میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور کہتے ہیں کہ ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا کیا مقصد ہے، یعنی انکار کردیتے ہیں۔ 55: منافقین کا جواب دیا ہے اور اور مثالوں کی حکمت بیان کی ہے اللہ تعالیٰ ان مثالوں کے ذریعہ گمراہی میں بھٹکنے والوں کو گمراہ کردیتا ہے اور جن کے اندر ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے انہیں مزید ہدایت دیتا ہے۔ 56: یہاں ” فسق“ سے مراد کفر ہے۔ فسق ان کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ اس کے بدلے میں کوئی دوسری چیز چاہتے ہی نہیں، اس لیے حکمت الٰہیہ کے تقاضے کے مطابق انہیں گمراہ کردیا گیا، کیونکہ ہدایت قبول کرنے کی ان کے اندر صلاحیت باقی ہی نہ رہی