أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
البتہ تحقیق مردوں پر گرتے ہو اور راہ مارتے ہو (نسل کی) اور اپنی مجلس میں برے کام کرتے ہو ۔ سو اس کی قوم کا اس کے سوا اور کچھ جواب نہ تھا ۔ بولے اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ۔
مسافروں پر چڑھ بیٹھتے، ان کے ساتھ زبردستی لواطت کرتے تھے ان کا مال واسباب لوٹ لیتے تھے اسی لیے لوگوں نے ان بستیوں سے گذرنا چھوڑ دیا تھا اور اپنی مجلسوں میں جمع ہو کر زور زور سے گوز کرتے، اپنے تہ بند اتار کرننگے ہوجاتے، اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لواطت کرتے راہ چلنے والوں پر پتھر چلاتے، اور مینڈھے اور مرغے لڑاتے (مسند احمد، ترمذی، ابن مردویہ) لوط (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی ان گناہوں سے روکا اور اللہ کے عذاب کا خوف دلایا لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہو ابلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ تم اللہ کے نبی ہو، اور یہ کہ ہم نے اگر اپنے اطوار نہ بدلے تو ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا تو پھر ایسا کر ہی گزرو ۔