إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے آزاد ، میں نے تیری نذر کیا ، تو اسے میری طرف سے قبول کر ، تو سنتاجانتا ہے (ف ١)
30: محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ عمران کی بیوی یعنی مریم علیہا السلام کی ماں کو حمل قرار نہیں پاتا تھا، انہوں نے دعا کہ اے اللہ مجھے بیٹا عطا کر، اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، جب حمل قرار پا گیا، تو انہوں نے نذر مانی کہ بچے کو عبادت اور بیت المقدس کی خدمت کے لیے بالکل فارغ کردوں گی، جب ولادت ہوگئی تو انہوں نے کہا، اے میرے رب ! یہ تو بچی ہوگئی اور میں نے تو سوچا تھا کہ بچہ ہوگا تو بیت المقدس کی خدمت کرے گا، اور اللہ کو تو معلوم ہی تھا کہ انہوں نے کیا جنا۔ اللہ نے کہا کہ وہ بچہ جس کی انہوں نے خواہش کی تھی قوت، صبر و تحمل اور مسجد اقصی کی خدمت میں اس بچی کی مانند نہ ہوتا جو پیدا ہوئی ہے۔ ام مریم نے اس بچی کا نام مریم رکھ دیا، مفسرین نے لکھا ہے کہ مریم کا معنی ان کی زبان میں عابدہ اور رب کی خادمہ کے ہیں۔ اس کے بعد ام مریم نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں اس بچی کو اور اس کی اولاد یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ بخاری و مسلم نے ابوہر یرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے مس کرتا ہے یعنی اس پر اپنا اثر ڈالتا ہے تو بچہ چیخنے لگتا ہے، لیکن مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) شیطان کے مس سے محفوظ رہے، اس کے بعد ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو ۔ فائدہ : یہ آیت دلیل ہے کہ ماں اپنے بچے کی نذر مان سکتی ہے، اور یہ کہ ماں اپنے چھوٹے بچے سے اپنی ذات کے لیے استفادہ کرسکتی ہے۔ اسی لیے ام مریم نے کہا کہ اے میرے رب ! میں اپنے حمل کو تیرے لیے وقف کرتی ہوں آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ آدمی کوچاہئے کہ جب اللہ سے اولاد مانگے تو ام مریم کی طرح اچھی اولاد کی نیت کرے، اور اس کے لیے عمل صالح کی خواہش کرے۔ حافظ سیوطی نے (الاکلیل) میں لکھا ہے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ بچے کا نام ولادت کے دن ہی رکھنا جائز ہے۔ ساتویں دین کی ہی تعیین صحیح نہیں۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ ماں اپنے بچے کا نام رکھ سکتی ہے، یہ کام باپ ہی کے ساتھ خاص نہیں