إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کو پوجوں جسے اس نے حرمت دی ہے اور ہر شے اسی کی ہے ۔ اور مجھے حکم ہوا ہے ۔ کہ میں حکم برداروں میں رہوں
(36) اوپر کی آیتوں میں قیامت کی کچھ نشانیاں اور اس کی بعض ہولناکیاں بیان کر کے کفار قریش کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اور اب نبی کریم (ﷺ)سے کہا جارہا ہے کہ وہ ان کافروں کے سامنے اپنا عقیدہ و عمل بیان کردیں اور اپنا موقف واضح کردیں، چنانچہ آپ نے قرآن کی زبان میں کافروں سے کہا کہ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤں، وہ مکہ جسے اللہ نے حرم اور جائے امن بنا دیا ہے، جہاں نہ کسی کو قتل کیا جاتا ہے نہ کسی پر ظلم ہوتا ہے، نہ اس کے جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے اور نہ اس کے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ شہر مکہ اور اس کے امن و سکون کو ذکر کرنے سے مقصود کفار قریش کو احساس دلانا ہے کہ ان نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس اللہ نے تمہیں یہ نعمتیں دی ہیں ان کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرتے اور اس کے قرآن اور اس کے رسول پر ایمان لے آتے۔ آپ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا : وہی اللہ ہر چیز کا خالق و مالک ہے اور مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اپنی جبین نیاز صرف اسی کے سامنے خم کروں،