قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
وہ بولے کیا ہم تجھے بتائیں حالانکہ کمینے لوگ تیرے تابع ہیں
31۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے اس دعوتی خطبے کا یہ جواب دیا کہ ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں؟ اور کیسے تمہاری پیروی کریں اور حالت یہ ہے کہ تمہاری پیروی صرف گرے پڑے لوگ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت و شرف کا معیار مال و جاہ تھا، نہ کہ بلند کردار اور اعلی اخلاق ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ مال و دولت والے دنیا داروں نے اللہ کے دین اور بلند اخلاق و کردار کی پرواہ نہ کی، اور غریبوں اور کمزوروں کو گھٹیا اور رذیل سمجھا، اور انہی کمزوروں نے آگے بڑھ کر اللہ کے دن کو گلے سے لگایا، اور اونچے کردار اور اچھے اخلاق کو مال و دولت پر ترجیح دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء کی پیروی کرنے والے زیادہ تر غریب اور کمزور لوگ ہوتے تھے اور دولت مند لوگ اپنے کبر و غرور کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس دین کی اتباع حقیر و فقیر لوگ کر رہے ہیں، وہ سچا اور برحق کیسے ہوسکتا ہے؟