الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنانا اور آسمان کو عمارت (چھت) بنایا پھر آسمان سے پانی اتارا ، جس سے تمہارے کھانے کو میوے نکالے ، سو تم جان بوجھ کر اس کے شریک نہ ٹھہراؤ(ف ١)
42: تمہارے اوپر نعمتوں کی بارش کی، زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا، جس پر تم مکان بناتے ہو، کاشت کرتے ہو، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو، اور آسمان کو تمہارے لیے چھت بنایا، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کو بسایا تاکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچائیں اور بادل سے پانی برسایا، جس کے ذریعہ مختلف قسم کے پھل پیدا کیے، تاکہ تم انہیں استعمال کرو، ان سے قوت حاصل کرو اور زندہ رہو۔ 43: ان ساری نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ بناؤ، جو تمہاری طرح مخلوق ہیں، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اور تم یہ جانتے بھی ہو کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں وہی تنہا پیدا کرنے والا ہے، روزی دینے والا ہے، اور وہی آسمان و زمین کے درمیان سارے امور کی تدبیر کرنے والا ہے صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ میں نے کہا : یارسول اللہ ! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ اس طرح اس آیت میں تین باتیں جمع ہوگئی ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم، اس کے سوا کی عبادت کا انکار، اور توحید ربوبیت کا بیان کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق، رازق اور مدبر نہیں۔ اور یہ کھلی دلیل ہے اس بات کی کہ سارے انسانوں پر صرف اس ذات واحد کی بندگی واجب ہے۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کیا ہے، کیونکہ جو شخص سفلی اور علوی موجودات و مخلوقات، ان کی شکلوں، رنگوں، مزاجوں اور منافع پر غور کرے گا، اور اس بات پر غور کرے گا کہ اللہ نے انہیں کس مناسب انداز میں اور کیسی مناسب جگہوں پر رکھا ہے تو وہ خالق کے وجود پر ایمان لے آئے گا۔ اس کی قدرت، حکمت، علم اور اس کی عظیم بادشاہت کا یقین اس کے دل و دماغ پر ثبت ہوجائے گا۔