قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
موسیٰ نے کہا ۔ مشرق اور مغرب اور جو ان کے درمیان میں ہے اس رب اگر تم عقل رکھتے ہو
موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ رب العالمین وہ ہے جو مشرق و مغرب اور ان دونوں کے درمیان کی ہر چیز کا رب ہے، اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ تھوڑی سی عقل والا آدمی بھی اسے سمجھتا ہے، یعنی اے فرعون ! صرف تمہاری عقل ماری گئی ہے کہ اتنا صاف ستھری بات تمہیں سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مشرق و مغرب کا رب ہونے کی بات اس لیے کی تاکہ فرعون کے دماغ میں یہ بات آسکے کہ آفتاب کو مشرق سے نکالنے اور مغرب میں ڈبونے پر ان کا معبود فرعون قادر نہیں ہے، تو پھر وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے؟ اور تاکہ فرعون کو بتا سکیں کہ تم تو صرف ایک ملک کے بادشاہ ہو، دوسرے ملکوں پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے، اور رب العالمین تو وہ ہے جس کی بادشاہی مشرق سے لے کر مغرب تک سارے عالم پر ہے