وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا
اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم (قریش) نے اس قرآن کو متروک (چھوڑا ہوا) ٹھہرایا (ف 1)
12۔ قیامت کے دن رسول اکرم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے حضور مشرکینِ مکہ کا شکوہ کریں گے۔ کہ اے میرے رب ! انہی لوگوں نے دنیا میں تیرے قرآن کے ساتھ بے اعتنائی برتی تھی، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت ہوتی تھی تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے، سیٹیاں بجاتے تھے اور مختلف قسم کی آوازیں نکالتے تھے، تاکہ لوگ غور سے نہ سن سکیں۔ اور یہ شکوہ اس لیے ہوگا تاکہ اللہ کا عذاب ان کے لیے بڑھا دیا جائے ایک دوسرا قول یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب سے یہ شکوہ دنیا میں کیا تھا۔ امام ابن القیم (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ھجر قرآن، یعنی قرآن کریم کو چھوڑ دینا کئی طرح سے ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اسے غور سے نہ سنے اور اس پر ایمان نہ لائے، اس پر عمل نہ کرے، اپنے تمام معاملات میں اسے فیصل نہ مانے، اس میں غور و فکر نہ کرے، اور اپنے روحانی امراض کا علاج اس کے ذریعہ نہ کرے۔ حافظ سیوطی اور ابو السعود وغیرہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے دھمکی ہے جو قرآن کریم کی روزانہ تلاوت نہیں کرتے ہیں، کہ قیامت کے دن نبی کریم (ﷺ) کے ان کے خلاف اللہ سے شکوہ کریں گے۔