سورة النور - آیت 26

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کیلئے ہیں ، اور ستھرے مر نہ ستھری عورتوں کیلئے ہیں یہ لوگ ان باتوں سے بری ہیں جو وہ کہتے ہیں ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے (ف ١) ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

15۔ عائشہ صدیقہ کی برات سے متعلق یہ آخری آیت ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں ’’ خَبِيثَات ‘‘ سے مراد برے کلمات اور ’’ خَبِيثُونَ ‘‘سے مراد برے لوگ ہیں، اسی طرح ’’طیبات ‘‘سے مراد اچھے کلمات اور’’ طیبون‘‘ سے مراد اچھے لوگ ہیں۔ یعنی خبیث عورتیں وار مرد ہمیشہ بری باتیں کرتے ہیں اور اچھی عورتیں اور مرد ہمیشہ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کو خبیث کہا گیا ہے جنہوں نے عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کے خلاف بات بنائی تھی، اور جن صحابہ کرام نے ابتدا سے ہی اس بات کو نہیں مانی تھی انہیں اچھے لوگوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ خبیث سے مراد عبداللہ بن ا بی اور طیب اور طیبہ سے مراد رسول اللہ (ﷺ) اور عائشہ صدیقہ ہیں۔ یعنی ابن ابی خبیث کو ہی خبیث بیوی ملے گی، رسول اللہ (ﷺ) تو طیب ہیں اس لیے ان کو عائشہ جیسی طیبہ (اچھی) بیوی ملی ہیں۔ آیت کے دوسرے حصے میں عائشہ اور صفوان بن معطل کی برات و پاکدامنی کی صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے عبداللہ بن ابی کی بہتان تراشی سے بالکل پاک ہیں۔