لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
جب تم نے اس کو سنا تھا ، تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہ کیا ، اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے ؟
7۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کی گئی ہے اور انہیں احساس دلایا گیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور عورتیں ان کی بہنیں ہیں، اور اسلام ان سے تقاضا کرتا ہے کہ جس طرح ان میں کا ہر ایک اپنے آپ کو پاکدامن سمجھتا ہے، تو دوسروں کے بارے میں بھی ان کا ایسا ہی گمان ہونا چاہیے، اور اگر کوئی بدطینت منافق ان میں سے کسی کے خلاف کوئی افترا پردازی کرتا ہے تو اس کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اسی وقت اس کی تردید کردینی چاہیے، اور کہہ دینا چاہیے کہ یہ ایک مسلمان بھائی یا بہن کے خلاف بہتان تراشی ہے، اور بالخصوص جو افترا پردازی نبی کریم (ﷺ) کی طاہرہ اور پاکیزہ بیوی سے متعلق ہو اس کے لیے تو مسلمانوں کے دل و دماغ میں جگہ ہونی ہی نہیں چاہیے۔