سورة البقرة - آیت 271

إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر تم خیرات کو ظاہر کرکے دو تو کیا اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور فقیروں (ف ٢) کو دو تو وہ تمہارے لئے اور بھی بہتر ہے اور اس سے تمہارے بعضے گناہ دور کر دے گا اور خدا تمہارے کاموں سے واقف ہے ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

368: آیت کے اس حصہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ صدقہ کو چھپانا افضل ہے تاکہ ریاکاری کا شبہ نہ رہے۔ لیکن اگر ظاہر کرنے میں کوئی دینی مصلحت ہو، جیسے نیت یہ ہو کہ کار خیر میں دوسرے لوگ اس کی اقتدا کریں تو ظاہر کرنا ہی افضل ہوگا۔ اسی لیے جمہور مفسرین کی رائے کہ چھپانے کی افضلیت نفلی صدقہ کے ساتھ خاص ہے۔ فرض صدقات و زکاۃ میں ظاہر کرنا ہی افضل ہے، صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ سات قسم کے لوگوں کو اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں ایک وہ آدمی ہوگا جس نے صدقہ دے کر چھپایا، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ نہ نے جانا کہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔