سورة البقرة - آیت 264

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! احسان جتا کر اور ایذا (ف ٣) کر اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو ، جیسے وہ جو اپنا مال لوگوں کے دکھلانے کو خرچ کرتا ہے اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا ، سو اس کی مثال اس صاف پتھر کی مانند ہے جس پر کچھ مٹی پڑی ہو پھر اس پر موسلادھار پانی برسے اور وہ اس کو صاف کر چھوڑے (ریاکار) اپنی کمائی پر کچھ اختیار نہیں رکھتے ، اور خدا منکروں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

363: اس آیت میں اور اس کے بعد آنے والی دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے والوں کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ اور ان کی تین مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اللہ پر ان کا ایمان نہیں ہوتا، اور نہ ان کی نیت ثواب کی ہوتی ہے، ان کا دل سخت اور چکنے پتھر کے مانند ہوتا ہے، جس پر مٹی جمی ہوتی ہے، دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ جب بارش ہوگی تو اس میں پودے اگیں گے، لیکن جب بارش ہوتی ہے تو مٹی دھل جاتی ہے اور سخت پتھر باقی رہ جاتا ہے۔ یہ مثال اس آدمی کے دل کی ہے جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، جو ایمان سے عاری اور سخت دل ہوتا ہے، نہ اللہ کی یاد سے نرم ہوتا ہے اور نہ اس کے خوف سے اس میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔