اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اللہ ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ زندہ ہے اور سب کا قائم رکھنے والا ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند (ف ٢) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ‘ سب اس کا ہے ، ایسا کون ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے اس کے پاس شفاعت کرے جو کچھ ان کے آگے اور پیچھے ہے اور جانتا ہے اور یہ لوگ اس کے علم میں سے کچھ نہیں گھیر سکتے مگر جتنا کہ وہ چاہے اس کی کرسی میں زمین و آسمان کی سمائی ہے اور ان دونوں کی نگہبانی اس کو تھکاتی نہیں اور وہ بلند مرتبہ اور سب سے بڑا ہے ۔
348: نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آیۃ الکرسی قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، اس لیے کہ اس میں باری تعالیٰ کی توحید، اس کی عظمت اور اس کی صفات کا بیان ہے، مسند احمد میں ابی بن کعب (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا، آیۃ الکرسی قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، مسند احمد میں ہی انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا، آیۃ الکرسی ایک چوتھائی قرآن ہے۔ امام احمد اور نسائی نے ابوذر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ عظیم ترین آیت جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہوئی، آیۃ الکرسی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے، جسے امام احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے۔ ، اور ۔ 349: اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تمام مخلوق کا تنہا معبود ہے، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور زندہ رہے گا، اور کبھی نہیں مرے گا، وہ قائم بنفسہ ہے، تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، اور تمام موجودات کو اسی نے پیدا کیا ہے، اسی نے انہیں باقی بھی رکھا ہے، اور اپنے وجود و بقا کے لیے انہیں جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ ہی انہیں وہ چیزیں دیتا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند 350: تمام موجودات اس کے غلام ہیں، اور اس کے قبضہ وقدرت میں ہیں۔ اللہ نے فرمایا: İإِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلاَّ آتِي الرَّحْمنِ عَبْداًĬ۔ کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات اللہ کے بندے ہیں (مریم :39) 351: اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کے لیے اللہ کے حضور شفاعت کرنے کی جراءت نہیں کرے گا، جب انبیاء اور فرشتے اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کریں گے، تو بھلا وہ اصنام جن کی کفار پرستش کرتے ہیں، اور جن کے بارے میں وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ وہ اللہ کے یہاں ان کے لیے سفارشی بنیں گے، کیسے شفاعت کرسکیں گے؟ حدیث شفاعت میں ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا میں عرش کے نیچے آؤں گا، اور سجدے میں گر جاؤں گا تو اللہ مجھے اسی حال میں چھوڑ دے گا جتنی دیر چاہے گا، پھر مجھ سے کہے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، سنا جائے گا، اور شفاعت کرو، قبول کی جائے گی (بخاری و مسلم) اور یہ شفاعت اہل توحید کے لیے ہوگی، مشرکین کے لیے نہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا کہ وہ کون خوش بخت ہوگا جس کو آپ کی شفاعت نصیب ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا کہ جس نے لا الہ الا اللہ پورے خلوص قلب کے ساتھ کہا ہوگا (بخاری) معلوم ہوا کہ یہ شفاعت اہل توحید کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہوگا 352: اللہ تعالیٰ کا علم تمام کائنات کو محیط ہے، کسی بھی مخلوق کا ماضی، حاضر اور مستقبل اس کے علم کے حدود سے خارج نہیں، جیسا کہ اللہ نے فرشتوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا : ۔ یعنی ہم بغیر آپ کے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے۔ ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں، اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں۔ 353: کوئی بھی شخص اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرشتوں کی زبان میں فرمایا: ۔ یعنی اے اللہ ! تیری ذات پاک اور بے عیب ہے، ہمارے پاس کوئی علم نہیں، سوائے اس علم کے جو تو نے دیا ہے (البقرہ- 32) 354۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ کرسی سے مراد علم ہے، یعنی اللہ کا علم آسمان اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ۔ یعنی اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کے دونوں قدموں کی جگہ ہے۔ 355: آسمان و زمین اور ان دونوں میں پائی جانے والی تمام مخلوقات و موجودات کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں، ہر ایک کا وہی اکیلا نگہبان ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں، ہر چیز اس کے سامنے حقیر و ذلیل ہے، ہر چیز اس کی محتاج ہے، اور وہ بے نیاز ہے۔ یہ اور ان جیسی تمام آیتوں اور صحیح احادیث میں باری تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ ان پر ایمان رکھا جائے، اور ان کی کیفیت نہ بیان کی جائے، اور نہ کسی مخلوق کی صفات کے ساتھ ان صفات کو تشبیہ دی جائے۔