يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
لوگو ! اگر جی اٹھنے کے بارہ میں تمہیں شک ہے ، تو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے ، پھر (خون کی) پھٹکی سے ، پھر نقشہ بنی اور غیر نقشہ بنی بوٹی سے ، تاکہ ہم تمہارے لئے بیان کریں ، اور رحموں میں جو ہم چاہیں ایک وقت مقررہ تک ٹھہرا رکھتے ہیں ، پھر ہم تمہیں بچہ نکال دیتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی جوانی کے زور کو پہنچو اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو مرجاتے ہیں اور کوئی تم میں وہ ہے جو نکمی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے ، اور تو زمین کو خشک دیکھتا ہے ، پھر جب ہم اس پر پانی نازل کرتے تو لہلہانے اور ابھرنے لگتی ہے اور قسم قسم کی نفیس چیزیں اگاتی ہیں ۔
(3) قیامت کے بعض حالات بیان کیے جانے کے بعد اب کفار و مشرکین کے لیے بعث بعد الموت کا عقیدہ بیان کیا جارہا ہے، جس کا انکار ہی دراصل تمام بیماریوں کی جڑ ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے عقیدے پر دو عقلی دلیلیں پیش کی ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر باقی انسان کو ماں اور باپ کی منی سے پیدا کیا ہے، باپ نطفہ ماں کے رحم میں پہنچا، اسے پہلے جامد خون بنا دیا، پھر اسے ایک لوتھڑا بنا دیا اور وہ لوتھڑا کبھی تو اللہ کی مرضی سے بچے کی شکل میں اختیار کرلیتا ہے اور کبھی اس میں جان نہیں پڑتی اور رحم سے ساقط ہوجاتا ہے، اور اللہ ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ انسان اس کی قدرت، علم اور حسن تدبیر پر ایمان لے آئے، اس کی عظمت کا اعتراف کرے اس سے محبت کرے اور اس کی بندگی کرے، پھر جو لوتھڑا بچے کی شکل اختیار کرلیتا ہے وہ ایک مدت معینہ تک رحم میں رہنے کے بعد پیدا ہوتا ہے تو نہایت ہی کمزور بچہ ہوتا ہے، پھر بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ بھرپور جوان ہوجاتا ہے اور کوئی بچہ بلوغت سے پہلے ہی مرجاتا ہے، اس لیے حکمت الہیہ کا یہی تقاضا ہوتا ہے اور کچھ لوگ لمبی عمر پاتے ہیں، یہاں تک کہ کھوسٹ ہوجاتے ہیں اور عقل و ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) کا مٹی سے اور ان کی ذریت کا قطرہ منی سے پیدا کیا جانا اس بات کی قطعی اور واضح دلیل ہے کہ جس باری تعالیٰ نے انہیں پہلی بار اس طرح پیدا کیا وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ بعث بعد الموت کی دوسری دلیل یہ ہے کہ زمین بے آب و گیاہ مردہ ہوتی ہے، اور جب بارش ہوتی ہے تو اس میں زندگی آجاتی ہے اور حرکت پیدا ہوجاتی ہے، اور پانی کے اثر سے مٹی پھول کر اونچی ہوجاتی ہے، اور پھر اس میں مختلف قسم کے خوبصورت پودے اگ آتے ہیں، مٹی کی حیثیت رحم مادر کی ہوتی ہے، اور بارش کا پانی نطفہ کے مانند ہوتا ہے، اور جس طرح نطفہ ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے، اسی طرح بیج بھی مٹی میں پرورش پاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد ایک زندہ پودا لہلہاتا ہوا اوپر آجاتا ہے اور پھر ایک مدت معینہ کے بعد جب کھیتی پک جاتی ہے تو انسان اسے کاٹ لیتا ہے، ویسے ہی جیسے انسان اپنی نوشتہ عمر گزار لینے کے بعد رخصت ہوجاتا ہے۔