سورة البقرة - آیت 253

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان رسولوں میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت (ف ١) دی ہے ، کوئی ان میں سے ہے جس سے خدا نے کلام کیا اور کسی کے ان میں درجے بلند کئے اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو ہم نے کھلے نشانی دئے اور روح القدس سے ان کی مدد کی اور اگر خدا چاہتا تو ان کے بعد کے لوگ صاف حکم پانے کے بعد ہرگز نہ آپس میں لڑتے لیکن انہوں باہم اختلاف ڈالا ، سو کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور خدا چاہتا تو وہ نہ لڑتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے ۔ (ف ٢)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ انبیاء و رسل کے درمیان گوناگوں فضائل وصفات میں تفاوت رہا ہے، بعض انبیاء کو اللہ نے کوئی ایسی فضیلت دی جو دوسروں کو نہیں ملی، ابراہیم کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا، موسیٰ سے بغیر کسی واسطے کے بات کی، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمام بنی نوع انسان سے رفیع المرتبت بنایا، کہا جاتا ہے کہ اللہ نے آپ کو ایک ہزار سے زیادہ نشانیاں دی تھیں، اور سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم تھا، جو تنہا تمام انبیاء پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے کافی تھا۔ اور عیسیٰ بن مریم کو دیگر معجزات دئیے جن کے ذریعہ اللہ کے حکم سے اندھے کو بینائی اور برص والے کو شفا ملتی تھی، مردوں کو زندہ کرتے تھے، اور جب گود ہی میں تھے تو لوگوں سے بات کی، اور اللہ نے روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی، یعنی جبرئیل امین کے ذریعہ، یا اس مقدس روح کے ذریعے جو اللہ نے ان میں پھونکی تھی۔ انبیائے کرام کے کمال و عظمت اور ان کے ساتھ بھیجی گئی نشانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ سارے انسان ان پر ایمان لے آتے، لیکن ایسا نہ ہوا، اور اکثر و بیشتر لوگ سیدھی راہ سے برگشتہ ہوگئے، اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، حالانکہ اللہ چاہتا تو سب کو ایک راہ ہدایت پر ڈال دیتا، لیکن اللہ کی حکمت اس کی مقتضی ہوئی کہ نظام عالم کو اسباب سے جوڑ دیا جائے۔ فائدہ : آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں سے افضل بنایا ہے، اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حدیث انا سید ولد آدم کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث لاتفضلونی علی الانبیاء یعنی مجھے دیگر انبیاء پر فوقیت نہ دو، آپ کی طرف سے تواضع پر محمول کی جائے گی،