سورة الأنبياء - آیت 105

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے نصیحت کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے (ف ١) ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(٣٨) زبور کا لغوی معنی کتاب ہے، یہاں اس سے مراد یا تو وہ (زبور) ہے جو داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی، یا تمام آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے اور ارض سے مراد یا تو جنت ہے یا کافروں کی سرزمین اور نیک بندوں سے مراد یا تو نبی کریم کی امت کے نیک لوگ ہیں یا ہر امت کے نیک لوگ۔ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھ دی ہے کہ جنت کے حقدار اس کے نیک بندے ہوں گے، سورۃ الزمر آیت (٧٤) میں آیا ہے : ﴿ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ﴾ اور جنتی کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ وپرا کیا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ یا یہ بات لکھ دی ہے کہ زمین پر اقتدار اس کے نیک بندوں کو حاصل ہوگا، اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے کہ اس آیت میں نبی کریم کی امت کے لیے بشارت ہے کہ وہ لوگ کافروں کے ممالک کو فتح کریں گے اور ان کے مالک و حاکم بن جائیں گے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا، قیصر و کسری کے جن علاقوں کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہاں مسلمان پہنچ پائیں گے، وہ سارے علاقے اسلام کے زیر نگیں آگئے۔ پھر جب مسلمانوں کی دینی حالت خراب ہوگئی تو زوال پزیر ہوگئے، اور قیامت تک جب کبھی یہ امت صلاح و تقوی کو اپنا شعار بنائے گی اور قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد ہوجائے گی تو اللہ کا وعدہ اپنے آپ کو دہرائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور آیت (٥٥) میں فرمایا ہے : ﴿ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔