فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
پھر جب فوج لے کر طالوت الگ ہوا تو بولا ، خدا تمہیں ایک نہر سے آزمائے گا ، سو جو اس سے پئے گا ‘ وہ میرا نہیں ہے اور جو اس کونہ چکھے گا ‘ وہ بےشک میرا ہے مگر جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے تو اتنے میں مضائقہ نہیں سو تھوڑوں کے سوا سب نے اس کا پانی پیا ، پھر جب طالوت نے اور اس کے ایماندار ساتھی اس نہر سے پار اترے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کی فوج سے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے جنہیں خدا کی ملاقات کا خیال تھا یوں بولے ، ایسا بہت ہوا ہے کہ چھوٹی جماعت خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب آئی ہے اور خدا صابروں کے ساتھ ہے ۔ (ف ١)
343: جب طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل عمالقہ سے جہاد کرنے کے لیے چلے تو طالوت نے کہا کہ ابھی ایک نہر آئے گی۔ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے صبر کا امتحان یہ ہے کہ شدت پیاس کے باوجود تمہیں اس کا پانی نہیں پینا ہے جو کوئی پی لے گا، وہ ہماری فوج سے الگ ہوجائے گا، اور جو ایک چلو سے زیادہ نہیں پئیے گا وہ ہمارے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اس آزمائش میں ان میں سے اکثر لوگ پورے نہ اترے، صرف تھوڑے لوگوں نے صبر سے کام لیا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس نے ایک چلو پی لیا وہ سیراب ہوگیا، اور جس نے خوب پیا وہ سیراب نہ ہوا، جب سب ایمان والے نہر پار کر گئے تو ان میں سے بعض ضعیف الیقین لوگوں نے کہا کہ آج ہم جالوت اور اس کی فوج سے جنگ نہیں کرسکتے، تو ان کے قوی الایمان علماء نے ان کی ہمت بڑھائی جنہیں معلوم تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے، اور فتح و نصرت اللہ کی طرف سے آتی ہے، اس کا تعلق کثرت تعداد سے نہیں ہوتا، اور کہا کہ بسا اوقات تھوڑی تعداد والی فوج اللہ کے حکم سے زیادہ تعداد والی فوج پر غالب آجاتی ہے۔